Sabaq Amoz Kahaniyan In Urdu | Urdu Moral Stories


راشن کی تقسیم اور فاحشہ عورت
راشن کی تقسیم اور فاحشہ عورت


Sabaq Amoz Kahaniyan In Urdu
راشن کی تقسیم اور فاحشہ عورت


راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا ایک پرانے مکان پر نظر پڑی اس کادروازہ کھٹکھٹانا چاہا ہی تھا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نےمنع کر دیا

پوچھنے پر وہ کہنےلگا کہ صاحب رہنے دیں یہ ایک فاحشہ عورت کا گھر ہے اس کو بہت جگہ سے راشن آتا ہے یہ بات سن کرمجھے یقین ہو گیا

کہ محلے میں سےکسی نے بھی اس کو راشن فراہم نہیں کیا ہو گا جیسے تیسے میں نےاس سے بحث کر کے دروازے پر دستک دی اندرسے دھیمی سی آواز آئی کون

میں نےبتایا کہ راشن سپلائی کر رہے ہیں آپ لینا پسند کریں گی تو انتہائی غمگین سی آواز آئی کہ آپ واپس چلے جائیں پہلے ہی اس محلے میں لوگ ہمیں جینے نہیں دیتے

ہم گزارا کر لیں گے آپ کی مہربانی آپ محلے کے شرفاء میں تقسیم کردیں اس کے بولنے کی انداز کومحسوس کر کے میں نے بضد ہو کرکہا کہ آپ مجھے اپنا بھائی سمجھیں اور محلے کی فکر نہ کریں

بہت اسرار کرنے کے بعد اس عورت نے اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولااور ہم نے راشن اور آٹے کا تھیلا وغیرہ اس کے گھر رکھ دیا وہ عورت خود پردے میں آئی اور شکریہ ادا کرنے لگی

لیکن دل مطمئن نہیں تھاکیونکہ وہ باپردہ عورت لگ رہی تھی محلے کا ایک فرد بھی میرےساتھ تھا جو بار بار مجھے چلنےکے لیے کہ رہا تھا اس فرد کی باتوں کو نظر انداز کر کے میں نے جوں توں ہمت کی

اور اس عورت سےپوچھ لیا کہ بہن آپ نے ایسا کیوں کہا کہ آپ کے گھر میں راشن موجودہےکہنے لگی کہ بھائی گھر میں آلو پڑے ہیں جو پچھلے ایک ہفتےسے بنا کے کھا رہے ہیں

محلے میں سے کسی نے خبر تک نہ لی عورتیں میرے گھر نہیں آتیں اب میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے میری بہن وہ بے کس عورت آنکھوں میں آنسو لیے بولی

میرے خاوند کو وفات پائے دو سال کا عرصہ گزر گیا ہے.اس وقت حالات بہت اچھے تھے. میرےدو بچے ہیں. کچھ وقت ٹھیک گزرا.میرے والد میرے لیے جتنا کر سکتےتھے. کرتے رہے.

ان کی وفات کےبعد حالات خراب ہونا شروع ہوگئے.  بچوں کا اور گھر کا نظام مشکل ہو گیا. ایک دن میرے خاوندکا قریبی دوست کچھ عرصے بعد باہرسے آیا.

اس نے مجھ سے بہت افسوس کیا. اور مجھے کچھ پیسے دے کرچلا گیا. پھر وہ کچھ دن بعد آیا.اور مجھے گھر کا راشن دے گیا۔دوسری دفعہ لوگوں نے جب میرےدروازے پر گاڑی کھڑی دیکھی

تو طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ پھر جب وہ واپس بیرون ملک لوٹنے لگا تو جاتے ہوئے میرے گھرآیا اور کہا کہ بہن یہ میرا نمبرہے

آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اپنے بھائی سے کہنا کسی محلے دار سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔

جب وہ باہر نکلا تو محلےکے لوگوں نے اسے پکڑ کر مارناشروع کر دیا۔ کہ تم نے ہمارے محلے میں گند مچایا ہوا ہے یہ سن کر میں نے چلانا شروع کر دیا

کہ تم لوگوں نے میرا حال تک نہ پوچھا اور اگر کوئی بھائی بن کرمیرا خیال کر رہا ہے تو تم اسےبھی مار رہے ہو شرم سے میری جان نکلی جا رہی تھی

کہ اتنی ہمدردی کا یہ صلہ ملا اسے وہ بھائی ان
کو سمجھاتا رہا کہ یہ میری بہنوں جیسی ہے لیکن محلے کے لوگوں کوجیسے ایک تماشا ملا تھا لگانے کوخیر وہ جان چھڑا کے وہاں سے چلا

کچھ عرصے تک مجھے اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتی تو میں کال کردیتی شرمسار ہو کر ان کو اور وہ مجھے بینک میں پیسے حسب ضرورت بھیج دیتے

پچھلے دو ماہ سے ان کوکال نہیں کی اور پھر یہ کروناوائرس کا مسئلہ ہو گیا تو سنا کہ ان بھائی کے ملک کے حالات زیادہ خراب ہو گئے ہیں دوبارہ میری ہمت نہ ہوئی کبھی ان کو کال کرنے کی

اب بیوہ سمجھ کر اگر کوئی میری مدد کرنا بھی چاہے تو محلے والے مجھےغلیظ نظروں سے دیکھتے ہیں اورمحلے میں اتنے شرفاء ہیں کہ ہر
کوئی گزرتے ہوئے میرے دروازے پرجھانک کر جاتا ہے

باہر جاتے ہوئےمجھے گھورتے ہوئے جاتے ہیں اپنی عورتوں کو میرے گھر آنے ہی نہیں دیتے یہ وائرس تو بہانہ رکھا ہےاللہ نے ہمیں راشن بھیجنے کاورنہ ضرورت کا سامان تو بالکل ختم ہونے کو ہے

کچھ دنوں سے اس بھائی کو کال ملانے کا سوچا لیکن ضمیر نے گوارا نہ کیا سوچا کہ پتا نہیں ان کے اپنے حالات کیسےہوں گے میرے بچوں کو بھی اب محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ

محلے میں ہماری ماں کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو دشمنوں کی بیٹیوں کے سروں پر چادر رکھا کرتے تھے

یہ کہاں کے دین دار لوگ ہیں کہ اگر کوئی میرے گھر میری مدد کرنے کو آتا ہے تو اس کو اس قدر مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ڈر کے مارے میری مدد تک کرناچھوڑ دی

یہ بات کرتے کرتےاس کا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ گیااور جو میرے ساتھ آدمی بیٹھا ہواتھا وہ شرم سے پانی پانی ہو رہاتھا مجھے پتا ہی نہ لگا کہ

میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی  تھی ہم نے راشن کے ساتھ کچھ نقد رقم بھی اپنی طرف سے ادا کر دی جو شخص میرے ساتھ تھا وہ باہرنکل کر کچھ بولنے ہی والا تھا کہ

مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کےبولنے سے پہلے ہی شروع گیا کہ بروز قیامت تم لوگوں کے اس راشن کو اللہ کیسے قبول کرے گا

جب کہ تمہیں محلے میں رہنے والے ان لوگوں کی خبر نہیں جو کسی کے دروازے پر نہیں جاتے کوئی کیساہے یہ اللہ اور اس کے درمیان کا
معاملہ ہے

آنکھوں دیکھا بھی بعض دفعہ سچ نہیں ہوتا اس کی خاموشی اور نم آنکھوں نے کچھ نہ بولاچار پانچ دن بعد اس نے محلے میں سے اچھی خاصی اکٹھی کر کے اس عورت کے گھر پہنچا دی۔
بے شک اللہ ہی جانتا ہے سب کے دلوں کے حال

ہم کریکٹر کو چھوڑ کر یہ تک سوچ کر کچھ نہیں دیتے کہ یہ وہابی ہے یہ سنی ہے یہ شیعہ ہےخدارا یہ سوچنا بند کر دیں کہ فلاں ضرورت مند ہے یا نہیں

اگراللہ تعالی ہمیں دیتے وقت نہیں سوچتے کہ یہ ضرورت مند ہےیا نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں یہ فرق کرنے والے، اپنی بہترین کوشش کرکے تلاش کر کے ضرورت مندوں کودیں

اور اگر کسی نے دھوکے سے سامان لے لیا تو وہ اللہ اور اسکا معاملہ ہے آپ کی نیت پر کوئی
شک نہیں اور آپ کو پورا پوراثواب ملے گا انشاءاللہ

آخری بات کہ خدارا دل نرم کیجیے اور اپنےارد گرد موجود ضرورت مندوں کا خیال رکھیں اس وقت انتظار نہ کریں

جب کوئی عورت بچوں کی بھوک سے مجبور ہو کر گھر کی دہلیز سےباہر نکل کر ہاتھ پھیلائے

اور پھر معاشرے میں موجود ہمارے جیسے بھیڑیے  فقط چند نوالوں کی خاطراس سے اس کا سب کچھ چھین لیں

ہاتھ جوڑ کر میں آپ سے التجاکرتا ہوں کہ خود باہر نکلیں اورایسے لوگوں کو تلاش کریں راتوں
کو اپنے محلے کا چکر لگائیں اوربچوں کے رونے کی آواز سن کر خالی برتنوں کی آواز سے اندازہ لگائیں

کہ ان کو راشن کی ضرورت ہوگی جن کو بھی ضرورت ہے ان تک ضرور راشن پہنچائیے









کمنتس

جدید تر اس سے پرانی