Aik Bewa Aurat Aur Dukandar Ki Kahani

 

ایک بیوہ عورت اور دکاندار کی کہانی

Aik Bewa Aurat Aur Dukandar Ki Kahani

مہوش کا شوہر ایک سال قبل وفات پا چکا تھا وہ شہر سے کچھ سامان لینے گیا تھا کہ اس کےساتھ ایک ایکسیڈنٹ پیش آگیا۔


ایک بیوہ عورت اور دکاندار کی کہانی
Aik Bewa Aurat Aur Dukandar Ki Kahani


جس میں وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا مہوش بہت زیادہ غمزدہ تھی اس کا کوئی اپنا نہ تھا جسےوہ اپنے دل کاحال سنا سکتی جب رات کو اس کا بیٹا حماد سو جاتا تو اپنے دکھ کو ہلکا کرنے کے لیے ڈائری لکھا کرتی۔

آج ہم آپ کے ساتھ اس کی ڈائری میں لکھا اس کے دل کا حال بیان کرنے جا رہے ہیں وہ لکھتی ہے کہ میں نہیں جانتی کہ ڈائری کیسے لکھتے ہیں

تمہارے ہوتے ہوئےکبھی ڈائری لکھنے کا خیال تک نہ آیا تھا آہا میرے پیارے تم نے تو ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں

تھیں اور اب میں اور تمہارے جگر کا ٹکڑا حماد کس طرح اس دنیا میں اکیلے رہنے لگے ہیں اور اب میں نے محسوس کیا ہے کہ

ایک مرد کے بغیر عورت کیسے اکیلی رہ جاتی ہے
تمہارے ہوتے ہوئے کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوا

قاسم دکاندار مجھے بری نگاہ سے دیکھتا ہے حالانکہ اس بڈھے کے گھر میں اپنے نواسے نواسیاں کھیل رہے ہیں


میں چاہتی ہوں کہ مجھے کبھی اس کی دکان پر نہ جانا پڑے مگر کیا کروں گھر کے حالات کی وجہ سے مجبور ہوں اور ایسے بھی مجھے

اتنے لمبے عرصے کے لیے ادھار دے گا بھی کون? پھٹے جوتے, یونیفارم اور کپڑے لے کر آج بیٹھی ہوں.

مجھ سے روز ڈائری نہیں لکھی جاتی. بس اسی دن ڈائری لکھتی ہوں جس دن بہت زیادہ غم زدہ ہوں. اب حماد باقاعدگی کے ساتھ سکول جاتا
ہے.

مگر اس کے جوتے اور یونیفارم پرانا ہے. میں نے اسے کہہ رکھاہے کہ جب بہت سارے کپڑے سلائی کےلیے آئیں گے

تو میں اسے نئے کپڑے اور جوتے لے دوں گی. وہ روز صبح سکول جانے سے پہلے مجھ سے پوچھتا ہے کہ ماں کیا آج بہت سارے کپڑے سلنے آئیں گے

تو میں اسے کہہ دیتی ہوں کہ کیوں نہیں میرے چاند وہ کہتا ہے کہ اماں گلی کی نکڑ پر جو قاسم دکاندار کی دکان ہے

وہ چاچا مجھے روز کافی ساری ٹافیاں فری میں دے دیتا ہے میں سوچتا ہوں کہ اماں ایسے اچھے لوگ دنیا میں بہت کم کیوں ہوتے ہیں

قاسم دکاندار جس کے تین جوان بیٹے ہیں جو کہ شہر میں اپنی بیویوں کے ساتھ رہتے ہیں آج اس کے بیٹے کا میرے سامنے فون آیاتھا

مگر اس نے میرے سامنے زیادہ بات نہیں کی اور فون رکھ دیا بس مجھے مسکرا کر پھاڑ پھاڑ کر گھورتا رہا. آج تو اس نے حد ہی کر دی

اور پوچھنے لگا کہ آگے کی زندگی کے بارے میں آپ کا کیا پلان ہے? اب اس سے بندہ پوچھے کہ بڈھے کھوسٹھ میرا آگے جو بھی پلان ہے

تمہارا اس سے کیا لینا دینا ہے? کاش کہ میں نے اس سےکبھی ادھار سامان نہ لیا ہوتا تو میں اسے منہ توڑ جواب دے دیتی.

مگر میرے پاس ابھی سلائی کا کام بھی اتنا نہیں آ رہا کہ میں اس کے پیسے ادا کر سکوں. آگے شادیوں کا سیزن آ رہا ہے.

اس میں اچھی کمائی ہو جائے گی. میں پیسے جمع ہوتے ہی سب سے پہلے اس منحوس کا قرض ادا کر کے جان چھڑوا لوں گی.

حماد کا ٹوٹا جوتا کل میں نے تیسری بار مرمت کروایا ہے. اس بار موچی کو جوتے کے تلوے بدلنے پڑے. آج اس قاسم دکاندار نے ایک رشتے کروانے والی کو میرے گھربھیجا. اس کا کہنا ہے 

کہ اگر تمم مجھسے شادی کر لو تو وہ تمہیں راشن کے سارے پیسے معاف کر دےگا. اور گھر کا کرایہ بھی ادا کر دے گا. اسے لگتا ہے کہ میرا دل نرم ہو جائے گا. حالانکہ میں تو اسے ایسے دیکھتی ہوں کہ اس کے سر پر کوئی اینٹ دے ماروں.

اب میں نے اس سے مہلت مانگی اور اب وہی ہوا جس کا ڈر تھا. آج پھر اس نےکروانے والی کے ساتھ اپنا رشتہ بھیج دیا. اس عورت کو بھی ذرا شرم نہیں آتی. کیسے منہ پھاڑ کر روز یہ بات کر دیتی ہے. دل تو کرتا ہے کہ میں اسے صاف جواب دے دوں.


لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر میں ایسا کروں گی تو ہمیں راشن دینا ہی بند کر دے گا. میں تو پھر بھوکی سو لوں گی لیکن حماد کا کیا ہوگا? یہ کیسے رہےگا؟ 


میں نے سوچا کہ آج خاموش رہتی ہوں. جب تک شادیوں کا سیزن نہیں آجاتا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو جاتے.م میںنے اس رشتے کروانے والی کو کہا ہے کہ مجھے سوچنے کے لیے مہلت چاہیے. آج حماد گھر آیا تو اس کے پاس اس کا یونیفارم اور جوتےتھے.


حماد نے مجھے بتایا کہ کیسےاس انکل قاسم نے اس کے پرانےیونیفارم اور جوتے دیکھ کر اسے نئے جوتے اور یونیفارم دلوایا.

اس سے کل کا انتظار نہیں ہو رہا تھا کہ کب وہ انہیں پہن کر سکول جائے گا. میں نے اس کمبخت سے سوچنے کے لیے مہلت کیا مانگی تھی


کہ اس کمبخت نے تو ایک دن بھی صبر نہیں کیا. تبھی تو اس نےحماد کو نیا یونیفارم اور جوتے دلوا دیے. اس کا خیال ہے کہ اس طرح وہ میرے دل میں اپنی جگہ بنالے گا. آج حماد کی خوشی کی انتہانہیں تھی.

وہ نئے یونیفارم کوپہن کر بے انتہا خوش تھا. قاسم دکاندار گھٹیا مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا تھا.

میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ دونوں چیزیں لے جا کر اس کے منہ پر دے ماروں. وہ مجھے کیا سمجھتا ہے. میرے ہاتھ ابھی سلامت ہیں.

میں اپنی سلائی کڑھائی کے کام سے گھر کاخرچہ چلا سکتی ہوں. مگر پھر حماد کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنےآگیا. وہ یہ دونوں چیزیں لے کربہت ہی خوش تھا.


وہ کافی عرصےبعد اتنا خوش ہے. اسے خوش دیکھ کر میں نے وہ دونوں چیزیں رکھ لی. ویسے بھی میں روز جھوٹ بول بول کر تھک گئی تھی.


پتا نہیں میں نے ٹھیک کیا بھی یا نہیں. آج مالک مکان بھی مجھ سے گھر خالی کروانے کے لیے آیا تھا. وہ توشکر ہے کہ قاسم دکاندار وہاں موجود تھا.


اس نے فورا تین ماہ کا کرایہ ادا کر دیا اور بات ختم ہو گئی. شاید اسی لیے آج رشتہ کروانے والی میرے پاس دوبارہ آئی تھی.


اس نے پھر مجھ سے وہی بات کی. میں نے اس سے کہا کہ قاسم سے کہو کہ آج تمہارا منہ میٹھا کروا دے. آج میں نے ہاں کر دی ہے.

وہ شادی کی تیاری کرے. بھلا میں کیا کرتی. میں مجبور تھی. مالک مکان گھر کے باہر اتنا شورمچا رہا تھا کہ میں مجبور ہوگئی.

کہ میں حماد کو لے کر کہاں کہاں پھروں گی. ایک اکیلی عورت سارا زمانہ دشمن بن چکا ہے اگر قاسم نہ ہوتا تو آج ہمارے سر پر یہ چھت بھی موجود نہ ہوتیش  شادیوں کےسیزن میں ابھی بہت وقت ہے


 اورحال تو یہ ہے کہ اس بار سلائی کےلیے ایک بھی سوٹ نہیں آیا اورپھر وہ ہمیں اتنے عرصے سے راشن بھی تو دے رہا تھا

آخر حماد کےسر پر بھی تو کوئی ہاتھ رکھنےوالا ہو گا میں اکیلی اس کی خواہشات پوری نہیں کر سکتی ہاں میرے فرحان زندگی بھی کیا رنگ دکھاتی ہے

جو ہم نے کبھی سوچابھی نہیں ہوتا وہ بھی ہمارے ساتھ ہو جاتا ہے آج بھی مجھے وہ زہر لگتا ہے. مگر میں کیا کروں؟میں مجبور ہوں, لاچار ہوں. اس تنگ دستی میں حماد کا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے.

 دوستوں ہم امید کرتے ہیں کہ بیوہ عورت کی اس کہانی سےآپ نے سبق ضرور سیکھا ہو گا.

کہ کسی مجبور اور لاچار عورت کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی بجائے اگر اللہ کی رضا کے لیے اس کی مدد کر دی جائے

تو اللہ اس انسان سے کتنا خوش ہوگا. دوستوں امید ہے ہماری آج کی کہانی  آپ کوضرور پسند آئی ہوگی.


سبق آموز کہانی اچھی لگی ہو تو اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں اور ہمیں کمنٹس کرکے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔

  جزاک اللہ خیرا

کمنتس

جدید تر اس سے پرانی